بدلتے حالات میں ہماری زندگی اور ہمارا مذہب ازقلم : محمد اویس رضوی صدیقی
دنیا مسلسل بدل رہی ہے، ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، معاشی کرائیسز، جیوپالیٹیکس، اقتصادی تبدیلی، ماحولیاتی تبدیلی، اور میڈیکل کرائیسز، نئی بیماریاں، صحت کی مسائل کے لحاظ سے کئی چیلنجز سامنے آنے والے ہیں، ٹیکنالوجی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور ان سب کا تعلق ہماری زندگی میں کسی نہ کسی شعبے سے ضرور ہے۔ اور ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنا تو دور کی بات ہمارے لوگوں کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔
دورِ حاضر میں تبدیلیوں پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول سے آگاہ رہنا چاہیے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اور وہ ہماری زندگیوں کو کیسے متاثر کر رہی ہیں
ہر چیز کا علم رکھنا ضروری ہے
علم ہر اعتبار سے ایک قیمتی سرمایہ ہے جو ہماری زندگیوں کو بہتر بنا دیتا ہے۔ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے بہتر طریقے سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ علم ہمیں اپنے خیالات اور نظریات کو واضح کرنے اور ان کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ یہ ہمیں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور دنیا پر ایک مثبت اثر ڈالنے میں مدد کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مذہبی تعلیمات کے ساتھ، ہر تعلیم کو جوڑنے کی کوشش کریں ہم اپنی مذہبی پہچان کے ساتھ ترقی کریں۔
ٹیکنالوجی اور ہمارے لیے آسانی
ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہماری مذہبی زندگی کو بہت سے طریقوں سے آسان اور قابل رسائی بنا دیا ہے۔ ہم اب گھر بیٹھے آن لائن مذہبی مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، آن لائن مذہبی خدمات میں شرکت کر سکتے ہیں، اور آن لائن مذہبی رہنماؤں سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے مذہبی برادریوں کو بھی ایک دوسرے سے جڑنے اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے میں آسانی پیدا کر دی ہے۔ لیکن جہاں فائدہ ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان نظر آرہا ہے، ڈیجیٹلی مسلکی وار ہو رہا ہے جس سے ہمارے مذہب و مسلک کا آئے دن نیا نقصان ہو رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور نقصانات
موسمیاتی تبدیلی ایک اور بڑا مسئلہ ہے اس سے ہر کوئی واقف نہیں ہے ، نہ اس بارے میں معلومات رکھنا چاہتا ہے جو ہماری زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے حالات جیسے سیلابی حالات، خشک سالی، اور گرمی کی لہریں ہمارے معاشی زندگی اور صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے حالات نے بہت متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ لوگوں نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک عذاب کے طور پر دیکھا ہے، جبکہ دوسروں نے اسے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا ہے جس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال
جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کر کے دین اسلام کے فروغ میں جہاں آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں تو کہیں اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے لوگوں کو گمراہی کی راہ پر گامزن کیا جارہا ہے۔
کہیں بے ہودہ اور غیر اخلاقی مناظر سے بھرپور ڈرامے ۔۔ریلز اور شارٹ کلپس، غیر اخلاقی مواد پرتجسس لفظوں سے مزین کر کے پوسٹ کی شکل میں سوشل میڈیا کی زینت بنایا جاتا ہے۔
بدلتے حالات اور اس پر فتن دور میں ایمان کی سلامتی کو جو خطرہ لاحق ہے اس سے میں اور آپ بخوبی واقف ہیں۔
اسلامی طرز عمل اور اسلامی قوانین کی پاسداری اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوکر جدید ٹیکنالوجی کے زریعے وقت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مثبت اقدامات کئیے جائیں۔ جس سے امت مسلمہ اور ہماری آنے والی نسلوں کو نقصان سے بچانےکی کوشش کی جائے۔
تبدیلیوں کا اثر مذہب پر
سیاسی اور سماجی پارٹیوں میں تبدیلی بھی ہماری مذہبی زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریتیں کمزور ہو رہی ہیں، اور آمریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں ہماری مذہبی آزادیوں اور حقوق کو متاثر کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ ممالک میں مذہبی اقلیتوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کچھ حکومتوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔ جس سے مذہبی عدم رواداری اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عام عوام میں جھگڑے فساد ہو رہےہیں مذہبی آزادیوں اور حقوق کے لیے چیلنج بڑھ رہے ہیں۔
ایک رہنما کی تلاش
ہمارے لیے یہ انتخاب کرنا بہت مشکل ہے
ہمارا رہنما مذہب کے ساتھ ہر شعبہء فکر کو سمجھنے والا ہو۔ رہنما ایسا ہو جو ملک کے لیے امن و امان والے فیصلے کرے، لوگوں کے لیے برابری کا سلوک کرتا ہو، چاہے ان کا مذہب، نسل، یا سماجی حیثیت کچھ بھی ہو۔ ایک اچھا رہنما وہ ہے جو اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ وہ انصاف پسند، حق بات کہنے والا اور مہربان ہو۔ وہ اپنے لوگوں کی بات سنے، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کرے، ایسا رہنما جو ملک و مذہب کو ایک متحد اور مضبوط قوم بنانے کے ساتھ ہمارے ملک کو بہتر بنانے میں مدد کر سکے ۔ وہ ملک کو ترقی، خوشحالی اور امن کی طرف لے جا سکے، دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات مظبوط کر سکے جس سے ہمارے ملک میں رہنے والا ہر ایک شعبہ میں ترقی کر سکے۔ عوام خوشحالی زندگی بسر کر سکے۔
لیکن یہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔
بدلتے حالات ہماری مذہبی زندگی پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بنیادی عقائد اور مذہبی معاملات پر مضبوطی سے ڈٹے رہیں، اور جدید دور کی وہ تبدیلیاں جن کا مذہب سے کوئی ٹکراؤ نہ ہو ان کو بھی اپنائیں تاکہ زمانے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھ سکیں
یاد رہے
جو قرآن و احادیث کے احکام ہیں وہی ہم مسلمانوں کے لیے قانون ہے، ہمیں اپنی مذہبی ہم نواؤں کو مضبوط بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی برادریوں کو مضبوط بنانے سے کمیونٹیوں میں امن، ترقی اور اتحاد کو فروغ ملے گا جس سے معاشرہ کامیاب ہوگا اور اس کے ساتھ ملک ترقی کرے گا۔
ہماری زندگی کے لیے یہ تمام حالات ایک چیلنج ہیں، اور ہمارے لیے یہ ایک موقع بھی ہیں ۔ ہم اپنی مذہبی زندگی اس کے قانون کے مطابق استعمال کر کے دنیا میں امن و امان، محبت، اور مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کریں اپنوں کو آگے بڑھائیں ایجوکیشن پر فوکس کریں۔ ہم اپنے ملک میں غربت اور بے روزگاری کو کم کر سکتے ہیں۔ جس سے ملک میں رہنے والے ہر شعبے میں ترقی کر سکتے ہیں۔
خیر اندیش
محمد اویس رضوی صدیقی
Muhammad Owais Razvi Siddiqui
10-08-2023 – 23-01-1445